تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاجات اور فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھانے والے لوگ جہاں ایک طرف مظلوموں کے حق میں کھڑے ہیں، وہیں دوسری جانب کچھ نام نہاد سلیبریٹیز کی خاموشی نے ان کے منافقانہ رویے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ حال ہی میں مائیک ٹائسن جیسے معروف باکسر نے لاکھوں ناظرین کے سامنے فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا، جس سے یہ ثابت ہوا کہ شرافت اور جرأت ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی؛ وہ اپنے عمل سے امام حسین علیہ السلام کے اُس قول کی عملی تفسیر بن گئے، جو آج بھی ہماری راہنمائی کے لیے روشن چراغ ہے کہ "اگر دین نہیں رکھتے تو کم از کم آزاد مرد بنو"۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے سلیبریٹیز جو معمولی موضوعات پر احتجاج کے لیے شور مچاتے ہیں، ہزاروں فلسطینی بچوں اور خواتین کے قتل عام پر خاموش ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنے پالتو جانوروں کے لیے محبت اور ہمدردی کے اظہار میں مصروف ہیں، لیکن غزہ کی مظلوم عوام کے لیے ایک لفظ تک نہیں بولتے۔
یہ خاموشی اُس وقت اور بھی زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب ہم عرب دنیا کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ الجزیرہ کے معروف اینکر فیصل القاسم نے حالیہ دنوں میں ایران کے کردار پر سوال اٹھایا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے ایران کہاں ہے؟ لیکن اردن کے ریٹائرڈ جنرل فایز الدویری نے بہترین جواب دیتے ہوئے کہا کہ "کیا ہمیں ایران سے فلسطین کی آزادی کی درخواست کرنی چاہیے؟ کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟"۔ اس بیان نے عرب ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے کیسے پہلو تہی کر رہے ہیں اور بیرونی ممالک سے امیدیں وابستہ کر کے اپنی غیرت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
دوسری جانب یورپ میں بھی اسرائیل کے خلاف عوامی ردعمل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ فرانس کے عوام نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے فٹبال میچ کا بائیکاٹ کیا، جس کی وجہ سے یہ میچ تاریخ کا سب سے کم تماشائیوں والا میچ بن گیا۔ یہاں تک کہ جب فرانسیسی حکومت نے اسرائیلی کھلاڑیوں کی میزبانی کی کوشش کی، تو عوام نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا اور غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ فرانس کے عوام نے اپنی نفرت اور غصے کا اظہار کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ ایک نوجوان نے یہاں تک کہ اسرائیلی ٹیم کے خلاف فلسطینی پرچم بلند کیا، حالانکہ فرانسیسی حکومت نے اس پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
مغرب میں فلسطین کے لیے بیداری کی یہ لہر ثابت کرتی ہے کہ دنیا بھر کے عوام مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے تیار ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ فرانس میں ایک پارلیمانی رکن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل کے خلاف تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسرائیلی جارحیت کسی بھی اخلاقی یا انسانی معیار پر پورا نہیں اترتی۔
یہ تمام واقعات ہمیں ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ آج ہمیں حق اور باطل میں فرق کرنا ہوگا اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا۔ امام حسین علیہ السلام کا قول آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے کہ اگر ہم دین نہیں رکھتے تو کم از کم آزاد اور باعزت انسان بن سکتے ہیں۔ آج جب دنیا بھر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجات ہو رہے ہیں، ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اور اپنی آواز کو ان مظلوموں کی حمایت میں بلند کرنا ہوگا۔ ہمیں منافقت کے بجائے شرافت کا دامن تھامنا ہوگا، کیونکہ تاریخ اُنہیں یاد رکھتی ہے جو حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، نہ کہ اُنہیں جو خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
اس وقت جب عالمی سطح پر فلسطین کے لیے حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے، ہمیں بھی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور اپنی مظلوم قوموں کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مائیک ٹائسن جیسے غیر مسلم شخص نے اپنی جرأت اور شجاعت سے وہ پیغام دیا ہے جسے آج کے مسلم سلیبریٹیز بھی دینے سے قاصر ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی انسانیت کو ثابت کریں اور امام حسین علیہ السلام کے پیغام کو زندہ رکھتے ہوئے ظالم کے خلاف کھڑے ہوں، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا اور حق و انصاف کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ آج دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اُس سچائی کے ساتھ کھڑے ہوں جو امام حسین علیہ السلام نے ہمیں سکھائی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ صورتحال میں فلسطین کے مسئلے پر عالمی ردعمل تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج جس طرح سے دنیا بھر میں عوامی بیداری کا مشاہدہ ہو رہا ہے، وہ اس بات کی علامت ہے کہ مظلوم کی حمایت کا جذبہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج فرانس، ہالینڈ، جرمنی، اور حتیٰ کہ امریکہ جیسے ممالک میں بھی فلسطینی عوام کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں شرکت کرنے والے عوام کسی مذہبی یا لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کے اصولوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ بیداری صرف مظاہروں تک محدود نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر بھی ایک نئی جنگ جاری ہے۔ اسرائیلی پراپیگنڈا مشینری کو دنیا بھر کے نوجوان، بلاگرز اور عام لوگ چیلنج کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں جھوٹے بیانیے کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ فلسطینیوں کی حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے لا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو اجاگر کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا کہ عرب دنیا بھی بیدار ہو رہی ہے۔ وہ عرب حکومتیں جو کبھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خواب دیکھ رہی تھیں، آج ان کے عوام انہیں اس مسئلے پر جوابدہ بنا رہے ہیں۔ عرب دنیا میں عوامی دباؤ کے باعث حکومتی بیانیے میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ لوگوں کا غم و غصہ، جو طویل عرصے سے دبا ہوا تھا، اب پھٹنے کو ہے۔
یہ سب کچھ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ مظلوم کی حمایت کا جذبہ عالمگیر ہے اور یہ جذبہ کسی بھی صورت میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں ظلم کے خلاف کھڑے ہو کر ہمیں یہ سبق دیا تھا کہ حق کی حمایت میں خاموشی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ آج ہمیں بھی اسی حوصلے اور جرأت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے موقف پر ڈٹے رہنا ہوگا اور اپنے معاشرے کو ان اصولوں کی یاد دہانی کرانی ہوگی جو انسانیت کے ضمیر کو جگاتے ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم تاریخ کے کس طرف کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ کیا ہم ان لوگوں کی صف میں شامل ہوں گے جو مظلوم کی حمایت کرتے ہیں؟ یا پھر ہم بھی ان لوگوں کی طرح خاموش رہیں گے جو مفادات اور مصلحتوں کے اسیر ہو کر حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہی اصل شرافت اور انسانیت کا تقاضا ہے۔
آخر میں، ہمیں اپنی نئی نسل کو بھی یہ پیغام دینا ہوگا کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف خاموشی اختیار کرنا دراصل ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔ انہیں یہ باور کرانا ہوگا کہ حق کے لیے آواز اٹھانا ہی اصل آزادی اور خودداری ہے۔ مائیک ٹائسن اور فرانس کے عوام کی مثالیں ہمارے لیے ایک سبق ہیں کہ جب انسانیت جاگتی ہے تو کوئی بھی طاقت اسے دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں اور اپنی آواز کو مزید مضبوط بنائیں۔ ہمیں اپنے اندر کی اُس شرافت کو بیدار کرنا ہوگا جس کی بنیاد پر ہم خود کو انسان کہلاتے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے پیغام کو عملی طور پر زندہ کریں اور دنیا کو یہ دکھا دیں کہ مظلوم کی حمایت میں ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
یہ وقت صرف باتوں کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ ہمیں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں ہمیں فخر سے یاد رکھیں کہ جب دنیا کے ضمیر سوئے ہوئے تھے، ہم نے بیدار رہ کر مظلوم کی حمایت کی۔ ہمیں یقین رکھنا ہوگا کہ جس طرح امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں حق کی فتح کی بنیاد رکھی، اسی طرح آج بھی مظلوم فلسطینی عوام کی فتح قریب ہے۔ اور یہ فتح ہمیں اُس وقت نصیب ہوگی جب ہم امام حسین علیہ السلام کے پیغام پر عمل پیرا ہوکر مظلوموں کا ساتھ دیں گے، چاہے اس کے لیے ہمیں کسی بھی قربانی سے گزرنا پڑیں۔